LOC Tor Di Ab | ایل او سی توڑ دی اب۔۔۔ | Imran Khushal
Sep 15, 2019 ·
6m 46s
Download and listen anywhere
Download your favorite episodes and enjoy them, wherever you are! Sign up or log in now to access offline listening.
Description
’جب تک میں نہ کہوں آپ نے لائن آف کنڑول نہیں توڑنی‘ ۔ یہ پیغام تھا وزیراعظم عمران خان کا پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے عوام کے لیے جب وہ جمعہ کے دن مظفر آباد میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ آج ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا جب بھارت نے جمّوں کشمیر کی نام نہاد خاص حثیت کو ختم کرتے ہوئے وہاں پر بدترین کرفیو لگایا اور سابق ریاست کے اِس حصّے میں غم وار غصّے سے بھرے عوام نے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کیا۔
اگرچہ یہ مارچ لائن آف کنٹرو ل، جسے عرفِ عام میں ایل او سی کہا جاتا ہے اور جو سنہ انیس سو بہتر میں پاک بھارت شملہ معاہدے کے صورت میں وجود میں آئی۔ کو عبور کرنے کے لیے نہیں تھے تاہم کچھ نوجوانوں نے ضلع کوٹلی کے کھوئیرٹہ تحصیل کے ایک مقام، جہاں میرا گھر ہے، سے لائن کے اس طرف جا نے کی کوشش کی اور زخمی بھی ہوئے۔
ایک اور احتجاج تحصیل ہجیرہ کے تیتری نوٹ کے مقام، جہاں اِس پار اور اُس پار کے بیچ کا کراسنگ پوئنٹ بھی ہے، پر ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دن رات ایل او سی پر دھرنا دیا۔ بھارتی مظالم کے خلاف نعرے لگائے اور ساتھ ہی ساتھ اس طرف کی انتظامیہ کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے۔ اس احتجاج میں خود مختار کشمیر کا مطالبہ نمایاں تھا۔
اب جب کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بیان کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس مناسب معلومات ہے تو فرض کریں انھوں نے لائن آف کنٹرول توڑنے کی اجازت اور حکم دے دیا۔
گو مشکل ہے لیکن فرض کریں کہ اس طرف کے کشمیری عوام نے زور لگا کر، خون بہا کر، جانیں گنوا کر، لائن آف کنٹرول توڑ دی۔ پھر؟
اب لائن آف کنٹرول پر دھماکے ہیں۔ زخمی ہیں۔ لاشیں ہیں۔ کچھ گر رہے ہیں کچھ اٹھ رہے ہیں۔ کچھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آگے بڑھنے والے اور آگے بڑھ چکے۔ پیچھے رہنے والے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ پاکستانی فوج اُس طرف جا نہیں سکتی۔ جائے گی تو باقاعدہ جنگ شروع ہو جائے گی اور اگر باقاعدہ جنگ کرنی ہو تو پھر عمران خان عوام کو ایل او سی عبور کرنے کے لیے تیار رہنے کی بجائے فوج کو تیار رہنے کا کہتے۔
خیر آپ نے فرض کیا۔ اِس پار کے کشمیری اُس پار کے کشمیریوں تک پہنچ چکے۔ سات آٹھ لاکھ بھارت فوجی یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ گولی نہیں چلا رہے۔ کیونکہ انھیں اپنی طرف کے کشمیریوں سے زیادہ پاکستانی وزیراعظم کے حکم پر ایل او سی عبور کرنے والے کشمیریوں سے ہمدردی ہے۔
اب۔ ایک دن گزر گیا۔ پاکستان دیکھ رہا۔ بھارت دیکھ رہا۔ دنیا دیکھ رہی۔ کیا ہوگا۔ لائن آف کنٹرول عبور کرنے والے بچ ہی تبھی سکتے ہیں اگر وہ سینکڑوں میں ہیں اور نہتے ہیں۔ ورنہ وہ تو دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جائیں گے۔ کیا ہوگا اب؟
میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔ خبریں ہیں، تبصرے ہیں۔ اِدھر لائن آف کنٹرول توڑ کر پار جانے والوں کی یکجہتی میں ریلیاں ہیں۔ نعرے ہیں۔ تقریریاں ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس ہے۔ بریکنگ نیوز ہیں۔ دفتر ِ خارجہ کی ہنگامی پریس کانفرنس ہے۔ اقوام ِ متحدہ میں وفد ہے۔
اور فرض کریں۔ مشکل ہے۔ پر فرض کریں۔ اس پار بھارتی حراست میں پہنچنے والوں تین سو تیرہ ہیں۔ ایسے ہی۔ تین سو تیرہ۔ دوسرا دن بھی گزر گیا۔ اس طرف بھی ہلچل ہے۔ اس طرف بھی کھلبلی مچی ہوئی۔ دنیا کو پتا چل گیا۔ پتا چلا کہ پاکستانی ویزراعظم کے حکم پر تین سو تیرہ کشمیریوں، جن میں سے گیارہ پاکستانی ہیں، نے لائن آف کنٹرول توڑ دی ہے۔
فرض کریں اور کرتے جائیں۔ پاکستان کی بھرپور مذمت پر، امتِ مسلمہ کے سخت احتجاج پر، امریکہ کے دباؤ میں آ کر اور چین سے ڈر کر بھارت بات چیت کے لیے راضی ہوگیا۔
لیکن اب شملہ معاہدے کے روح سے کشمیر پر بات کا حق ان تین سو تیرہ یا باقی کشمیریوں کو نہیں بلکہ وہ حق پاکستان اور بھارت کا ہے۔ تو ان کا کھیل تو ختم ہوا۔ اب پاک بھارت سربراہان نے ملنا ہے۔ اب باہمی مذاکرات ہونے ہیں۔
تو سوا ل یہ ہے کہ اگر بات چیت سے ہی مسئلہ حل ہونا ہے تو یہ اتنا کشٹ کیوں؟ پاک بھارت مذاکرات سے ہی کشمیر پر بات آگے بڑھنی ہے تو مذاکرات کے لیے سفارت کاری کی بجائے مہم جوئی کیوں؟
اور یاد رہے یہ مہم جوئی کشمیری پہلے بھی کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ انیس سو بانوے سے چلا تھا۔ جب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قوم پرستوں کی ایک ایسی ہی کال پر کئی نوجوان زخمی ہوئے اور کم از کم دو نوجوانوں کو بھارتی فوج نے جان سے مار دیا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس سال کی طرح گذشتہ سال بھی بھارتی گولہ باری کے خلاف ایل او سی کی طرف احتجاجی مارچ کرنے والوں پر یہاں کی انتظامیہ نے تشدد کرتے ہوئے ایک نوجوان کو ہلا ک کر دیا تھا۔
اب واپس اسی سوا ل پر آتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے سفارت کاری کی بجائے مہم جوئی کیوں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان سفارتی محاذ پر ناکام ہو چکا ہے؟ کیا یہ سمجھ لینا درست ہو گا کہ عالمی طاقتیں جیسا کہ امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس اب کلی طور پر بھارت کی حمایتی ہیں اور پاکستان کو اگر تھوڑی بہت حمایت مل سکتی ہے تو وہ صرف چین سے مل سکتی ہے؟ اور کیا یہ تنیجہ اخذ کرنا درست ہو گا کہ دنیا میں امتِ مسلمہ نام کی کوئی چچیز نہیں اور جدید ریاستوں کی معاملات باہمی مفادات پر چلتے ہیں نہ کہ مذہبی جذبات پر؟
اور سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی وہ سفارت کاری جو بھارت کو مذاکراتی میز پر لانے میں ناکام ہو چکی ہے وہ مذاکرات ہوتے بھی ہیں تو ان سے کیا نکال سکتی ہے؟
عمران خوشحال فری لانس جرنلسٹ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ آج ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا جب بھارت نے جمّوں کشمیر کی نام نہاد خاص حثیت کو ختم کرتے ہوئے وہاں پر بدترین کرفیو لگایا اور سابق ریاست کے اِس حصّے میں غم وار غصّے سے بھرے عوام نے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کیا۔
اگرچہ یہ مارچ لائن آف کنٹرو ل، جسے عرفِ عام میں ایل او سی کہا جاتا ہے اور جو سنہ انیس سو بہتر میں پاک بھارت شملہ معاہدے کے صورت میں وجود میں آئی۔ کو عبور کرنے کے لیے نہیں تھے تاہم کچھ نوجوانوں نے ضلع کوٹلی کے کھوئیرٹہ تحصیل کے ایک مقام، جہاں میرا گھر ہے، سے لائن کے اس طرف جا نے کی کوشش کی اور زخمی بھی ہوئے۔
ایک اور احتجاج تحصیل ہجیرہ کے تیتری نوٹ کے مقام، جہاں اِس پار اور اُس پار کے بیچ کا کراسنگ پوئنٹ بھی ہے، پر ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دن رات ایل او سی پر دھرنا دیا۔ بھارتی مظالم کے خلاف نعرے لگائے اور ساتھ ہی ساتھ اس طرف کی انتظامیہ کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے۔ اس احتجاج میں خود مختار کشمیر کا مطالبہ نمایاں تھا۔
اب جب کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بیان کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس مناسب معلومات ہے تو فرض کریں انھوں نے لائن آف کنٹرول توڑنے کی اجازت اور حکم دے دیا۔
گو مشکل ہے لیکن فرض کریں کہ اس طرف کے کشمیری عوام نے زور لگا کر، خون بہا کر، جانیں گنوا کر، لائن آف کنٹرول توڑ دی۔ پھر؟
اب لائن آف کنٹرول پر دھماکے ہیں۔ زخمی ہیں۔ لاشیں ہیں۔ کچھ گر رہے ہیں کچھ اٹھ رہے ہیں۔ کچھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آگے بڑھنے والے اور آگے بڑھ چکے۔ پیچھے رہنے والے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ پاکستانی فوج اُس طرف جا نہیں سکتی۔ جائے گی تو باقاعدہ جنگ شروع ہو جائے گی اور اگر باقاعدہ جنگ کرنی ہو تو پھر عمران خان عوام کو ایل او سی عبور کرنے کے لیے تیار رہنے کی بجائے فوج کو تیار رہنے کا کہتے۔
خیر آپ نے فرض کیا۔ اِس پار کے کشمیری اُس پار کے کشمیریوں تک پہنچ چکے۔ سات آٹھ لاکھ بھارت فوجی یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ گولی نہیں چلا رہے۔ کیونکہ انھیں اپنی طرف کے کشمیریوں سے زیادہ پاکستانی وزیراعظم کے حکم پر ایل او سی عبور کرنے والے کشمیریوں سے ہمدردی ہے۔
اب۔ ایک دن گزر گیا۔ پاکستان دیکھ رہا۔ بھارت دیکھ رہا۔ دنیا دیکھ رہی۔ کیا ہوگا۔ لائن آف کنٹرول عبور کرنے والے بچ ہی تبھی سکتے ہیں اگر وہ سینکڑوں میں ہیں اور نہتے ہیں۔ ورنہ وہ تو دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جائیں گے۔ کیا ہوگا اب؟
میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔ خبریں ہیں، تبصرے ہیں۔ اِدھر لائن آف کنٹرول توڑ کر پار جانے والوں کی یکجہتی میں ریلیاں ہیں۔ نعرے ہیں۔ تقریریاں ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس ہے۔ بریکنگ نیوز ہیں۔ دفتر ِ خارجہ کی ہنگامی پریس کانفرنس ہے۔ اقوام ِ متحدہ میں وفد ہے۔
اور فرض کریں۔ مشکل ہے۔ پر فرض کریں۔ اس پار بھارتی حراست میں پہنچنے والوں تین سو تیرہ ہیں۔ ایسے ہی۔ تین سو تیرہ۔ دوسرا دن بھی گزر گیا۔ اس طرف بھی ہلچل ہے۔ اس طرف بھی کھلبلی مچی ہوئی۔ دنیا کو پتا چل گیا۔ پتا چلا کہ پاکستانی ویزراعظم کے حکم پر تین سو تیرہ کشمیریوں، جن میں سے گیارہ پاکستانی ہیں، نے لائن آف کنٹرول توڑ دی ہے۔
فرض کریں اور کرتے جائیں۔ پاکستان کی بھرپور مذمت پر، امتِ مسلمہ کے سخت احتجاج پر، امریکہ کے دباؤ میں آ کر اور چین سے ڈر کر بھارت بات چیت کے لیے راضی ہوگیا۔
لیکن اب شملہ معاہدے کے روح سے کشمیر پر بات کا حق ان تین سو تیرہ یا باقی کشمیریوں کو نہیں بلکہ وہ حق پاکستان اور بھارت کا ہے۔ تو ان کا کھیل تو ختم ہوا۔ اب پاک بھارت سربراہان نے ملنا ہے۔ اب باہمی مذاکرات ہونے ہیں۔
تو سوا ل یہ ہے کہ اگر بات چیت سے ہی مسئلہ حل ہونا ہے تو یہ اتنا کشٹ کیوں؟ پاک بھارت مذاکرات سے ہی کشمیر پر بات آگے بڑھنی ہے تو مذاکرات کے لیے سفارت کاری کی بجائے مہم جوئی کیوں؟
اور یاد رہے یہ مہم جوئی کشمیری پہلے بھی کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ انیس سو بانوے سے چلا تھا۔ جب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قوم پرستوں کی ایک ایسی ہی کال پر کئی نوجوان زخمی ہوئے اور کم از کم دو نوجوانوں کو بھارتی فوج نے جان سے مار دیا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس سال کی طرح گذشتہ سال بھی بھارتی گولہ باری کے خلاف ایل او سی کی طرف احتجاجی مارچ کرنے والوں پر یہاں کی انتظامیہ نے تشدد کرتے ہوئے ایک نوجوان کو ہلا ک کر دیا تھا۔
اب واپس اسی سوا ل پر آتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے سفارت کاری کی بجائے مہم جوئی کیوں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان سفارتی محاذ پر ناکام ہو چکا ہے؟ کیا یہ سمجھ لینا درست ہو گا کہ عالمی طاقتیں جیسا کہ امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس اب کلی طور پر بھارت کی حمایتی ہیں اور پاکستان کو اگر تھوڑی بہت حمایت مل سکتی ہے تو وہ صرف چین سے مل سکتی ہے؟ اور کیا یہ تنیجہ اخذ کرنا درست ہو گا کہ دنیا میں امتِ مسلمہ نام کی کوئی چچیز نہیں اور جدید ریاستوں کی معاملات باہمی مفادات پر چلتے ہیں نہ کہ مذہبی جذبات پر؟
اور سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی وہ سفارت کاری جو بھارت کو مذاکراتی میز پر لانے میں ناکام ہو چکی ہے وہ مذاکرات ہوتے بھی ہیں تو ان سے کیا نکال سکتی ہے؟
عمران خوشحال فری لانس جرنلسٹ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
Information
Author | Imran Khushal |
Organization | Imran Khushal |
Website | - |
Tags |
Copyright 2024 - Spreaker Inc. an iHeartMedia Company